عظیم صوفی شاعر سرتاج اولیاء سُلطان العارفین حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ


پیدائش

حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ 5ربیع الاوّل 1265ھ‘ بمطابق29جنوری 1849ء بروز سوموار موضع عالمپور، تحصیل دسوہہ، ضلع ہوشیارپور، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔آپؒ کی قوم گجر اور گوت کسانہ تھی۔ آپؒ کے دادا کا نام چو ہدری سلطا ن علی اور دادی کانام ہاجرہ بی بی تھا۔ آپ کے والد محترم چوہدری مراد بخش کی دوشادیاں ہوئیں پہلی شادی گاؤں لُڈھیا نی میں ہو ئی ،اس بیو ی سے کو ئی اولاد نہ ہوئی اور دوسری شادی موضع دُھو تاں میں خداداد کی بیٹی رحمت بی بی سے ہو ئی اور یہی خاتون محترمہ رحمت بیبی مو لو ی صاحبؒ کی والدہ تھیں۔مولوی صاحب والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کی پیدائش کے چھ ماہ بعد آپ کی والدہ محترمہ کاانتقال ہو گیا مولوی صاحبؒ کی عمر ابھی تقریباََ12سال تھی کہ آپ کے والد محترم بھی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔

تعلیم

ظاہری طور پر باقاعدگی سے تحصیل علم کے بارے میں کسی طرف سے کوئی سراغ نہیں ملتا اور یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ علم لدنی یعنی (الہامی علم)سے مستفیض تھے یعنی ا للہ تعالیٰ کا آپ پر خاص فضل و کرم تھا تاہم ابتدائی تعلیم کے طور پراپنے گاؤں کے مولوی حامد صاحب سے کچھ عربی اورفارسی کی کتب پڑھیں پھر کچھ علم قریب کے ایک گاؤں غلزیاں کے مولوی عثمان صاحب سے حاصل کیا ۔

ملازمت

ظاہری علوم سے فارغ ہونے کے بعدآپ میرپور کے پرائمری سکول میں بحثیت استاد پڑھانے لگے۔آپ نے میرپور کے پرا ئمری سکول میں بحثیت استاد 1864ء سے 1878ء تک 14سال تعلیم دی۔1878ء میں آ پ کا تبا دلہ مو ضع مہیسر ہوگیا۔ ’’مہیسر‘‘ عالمپور سے تقریباََ2 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔وہاںآپ نے 4سال پڑھایا اور2 188ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر عالمپو ر آگئے۔ آپؒ نے تقریباََ18 سا ل بحثیت سکو ل اُستا د ملازمت کی اور جب آپ نے استعفٰی دیا تواس وقت آپ کی عمر تقریباََ 33 سا ل تھی۔

خُلق اورعا دات وخصائل

حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کی عادتیں بہت پیاری تھیں۔ وہ طبیعت کے بہت اچھے اورملنسار تھے ساری عمر کسی سے غصے میں آ کر نہیں بولے۔ راہ چلتے تو نظریں نیچی ہوتیں۔ بڑے باوقار انداز سے چلتے تھے۔ خوش لباس اور خوش گفتار تھے۔ طبیعت میں لطیف سا مزاح بھی تھا ۔آپ سفید کرتا، سفید دھوتی اور سفید پگڑی پہنتے تھے تاہم کبھی کبھار مسدی پگڑی اور ملتانی لنگی بھی پہن لیتے تھے۔آپؒ باقاعدگی سے مسواک کر تے تھے۔ آپ کی بات میں بڑی تاثیر تھی اللہ تعالیٰ نے آپؒ کوفصاحت و بلاغت عطا فرمائی تھی۔ لوگ آپ کا بہت احترام کرتے تھے قوت ایمانی کایہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا آدمی بھی آپ کے سامنے جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کرتاتھا۔

حُلیہ مبا رک

حضرت مو لو ی غلا م رسول عا لمپو ریؒ کا قد تقریباََ پونے چھ فٹ تھا۔ آپؒ کے چہرے کے نقو ش خو بصو ر ت تھے ۔جسم مبا رک پتلا تھا مگر نحیف نہ تھے بلکہ صحت منداور متناسب جسم تھا ۔ آپؒ کی داڑھی مبارک چھو ٹی تھی ۔دا نت سفید، ہموار اور خو بصور ت تھے۔ رنگ گورا سرخی ما ئل تھا۔آنکھیں درمیانی تھیں نہ زیادہ موٹی اور نہ چھو ٹی تھیں اور سُر خی ما ئل تھیں ۔آپ کی ہتھیلی بھر پو ر تھی اور سُرخی ما ئل تھی ۔آپؒ کے سر کے بال بھر پو ر تھے لیکن زیا دہ لمبے نہ تھے ۔آپ کی پیشانی تنگ نہ تھی بلکہ بہت مناسب تھی۔ آپ کی گردن مناسب تھی زیا دہ پتلی نہ تھی اور نہ ہی بہت مو ٹی تھی ۔

نکاح و اولاد

حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کی تین شادیاں ہوئیں پہلی شادی مو ضع دُھوتاں ،تحصیل بھُونگہ، ریاست کپور تھلہ اپنے ماموں علی بخش کی بیٹی کرم بی بی سے بیس 20سال کی عمر میں 1869ء میں ہوئی یہ بیوی 1873ء میں وفات پا گئیں ان میں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔دوسری شادی گاؤں سکرالا ضلع ہوشیارپور 1881ء میں ہوئی یہ بیوی 1886ء میں وفات پاگئیں ان میں سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جن کا نام ’’عائشہ بی بی‘‘ تھا۔ عا ئشہ بی بی کی شادی چو ہدری سلطان علی سے ہوئی جو عالمپو ر کے قریب ایک گا ؤ ں بلڑا ں کا رہنے والا تھا۔1947 ء سے پہلے دونوں میاں بیو ی فو ت ہو گئے ۔ان کی ایک بیٹی غلام فا طمہ اور بیٹا فضل احمد تھا فضل احمد جوان عمر میں ہی وفات پا گیا جبکہ غلام فا طمہ کی شادی محمد علی سے ہو ئی اور یہ دونوں میاں بیو ی1947ء کے بعد پاکستان آگئے اور چند سال بعدان کا انتقال ہو گیا ان کی اولاد فیصل آباد اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آبا د ہے ۔ تیسری اور آخری شادی 1309ہجری بمطابق 1891ء میں گاؤں کھنیاں ودھایاکے رہائشی گلاب گجر کی بیٹی محترمہ زینب بی بی سے ہوئی ان میں سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جن کا نام خدیجہ بی بی تھا۔ خدیجہ بی بی کی پیدا ئش سے تقریباََ2 ماہ قبل مو لو ی صاحب کی وفا ت ہو گئی لیکن وفات سے قبل مو لو ی صاحبؒ نے اپنی بیو ی زینب بی بی سے کہا کہ تمہارے ہا ں بیٹی پیدا ہو گی اور اُس کا نام خدیجہ بی بی رکھنا لہٰذا ایسا ہی ہو ا ۔خدیجہ بی بی کی عمر تقریباََ پانچ سال تھی کہ ان کی والدہ محترمہ زینب بی بی کا انتقال ہو گیا ۔محترمہ خدیجہ بی بی کی شادی چوہدری عبدالعزیز سے ہوئی جو عالمپور ہی کے رہنے والے تھے اوران کا تعلق اہم زمیندار گھرانے سے تھا ۔محترمہ خدیجہ بی بی پاکستان بننے سے پہلے وفات پا گئیں جبکہ چوہدری عبدالعزیز پاکستان بننے کے کافی عرصہ بعد تک زندہ رہے اور اُن کی وفات 1975ء میں ہوئی۔ محترمہ خدیجہ بی بی کی اولاد دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں بڑا بیٹا عبدالطیف تقریباََ 18سال کی عمر میں پاکستان بننے سے قبل وفات پا گیا ان سے چھوٹے سعیدہ بیگم ،مسعودہ بیگم، عبدالرشید اور رضیہ بیگم ہیں۔ 1947 ء کے بعدمحتر مہ رضیہ بیگم کی شا دی چو ہد ری غلا م قادر سے ہو ئی ۔چو ہد ری غلا م قادر مو ضع پھا مبڑا ،تحصیل بھو نگہ، ریاست کپور تھلہ، انڈیاکے رہنے والے تھے جو کہ پا کستا ن آکرضلع لا ئل پو ر تحصیل سمندری کے ایک گاؤں چک نمبر142گ۔ب گریوالمیں آبا د ہو ئے۔ بندہ صاحبزادہ مسعود احمد محترمہ رضیہ بیگم کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے جبکہ محترمہ خدیجہ بی بی کا نواسا اور مولوی صاحبؒ کا پڑنواسا ہے۔

تصانیف

1947میں تقسیم ملک کے دلخراش لمحات میں جب لوگوں کو بدقسمتی سے اپنا قدیم وطن ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی تو میرا خاندان بھی اپنی تمام جمع پونجی وہیں چھوڑکر صرف عظیم صوفی شاعرحضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کا قلمی نسخوں سے بھرا کتابوں کا بکسا اُٹھا کر اپنے گاؤں سے باہر نکل کر ابھی گاؤں کیساتھ بہتے برساتی نالے جسے (بئیں) کہا جاتا ہے پر پہنچا تھا کہ سکھوں نے حملہ کرکے دیگر جانی نقصان کے علاوہ کتابوں سے بھرا یہ بکسا بھی چھین لیا۔ اسلئیے اب جو کتب کسی ذریعے سے مجھ تک پہنچی ہیں وہ میں عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں اس لئے جو کتب دستیاب ہیں اُنکا تذکرہ کریں گے۔حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کا زیادہ تر کلام پنجابی میں ہے لیکن آپ نے بڑی اہم کتب اُردو، فارسی اور عربی میں بھی تحریر کی ہیں۔ آپؒ کاکلام میٹرک سے ایم اے تک پاکستانی نصاب میں شامل ہے اور آپ کی شخصیت اورکلام پر ڈاکٹر صادق جنجوعہ اور ڈاکٹر حفیظ احمد نے پی ایچ ڈی کی ہے۔میں نے حضرت مو لو ی غلا م رسول عالمپو ری ؒ کی کتب کے با رے میں ترتیب وار جو تا ریخ اور سن دئیے ہیں کہ اُنہو ں نے کس تا ریخ ،سن،کتنی عمر اور کتنے عرصہ میں کتاب مکمل کی ہے یہ تما م معلومات با لکل صحیح ہیں کیو نکہ تما م تر معلو ما ت مو لو ی صاحبؒ نے خو د اپنی کتب میں فرا ہم کی ہیں ۔

  1. آپ ؒ نے سب سے پہلے ’’داستان امیرحمزہ‘‘ کی پہلی جلد پندرہ سال کی عمر میں تقریباً ایک ماہ میں 1281ہجری بمطابق 1864ء میں مکمل کی جبکہ دوسری اور تیسری جلدبروز جمعرا ت16 محر م 1286ھ بمطابق29اپریل 1869ء 8بیساکھ 1926بکر می 20سال کی عمر میں 2 ماہ میں مکمل کی ۔ جس کے اشعار کی تعداد تقریباََ20,000 ہزار ہے۔

  2. دوسری کتاب ’’روح الترتیل‘‘ 19 سال کی عمر میں 1285ھ بمطابق1868ء کو مکمل کی جس کے اشعار کی تعداد 256ہے۔

  3. حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ نے تیسری کتاب’’ احسن القصص‘‘ 24سال کی عمر میں ایک ماہ میں 1290 ھ مطابق 1873ء کو مکمل کی۔ آ پ نے احسن القصص کو اپنی زند گی میں ہی شا ئع بھی کیا۔احسن القصص کے اشعار کی تعداد 6666ہے۔

  4. چوتھی کتاب’’مسئلہ توحید‘‘ یہ اُردو نثر میں ہے جو آپ نے 29سال کی عمر میں 17ذیعقد 1295ھ مطابق 1878ء کو مکمل کی۔

  5. ’’سی حرفی حلیہ شریف حضور ﷺ‘‘ 27ربیع الاول 1297ھ مطابق 9مارچ1880ء موافق 28پھاگن 1936بکرمی بروز منگل بوقت عصر میراں و جا نی مو چی کی فر ما ئش پر تحریر کیا۔ اس وقت آپ کی عمر 31سال تھی۔

  6. ’’چٹھیاں‘‘ مولوی صاحبؒ نے سید روشن علی، ہیرے شاہ اور صاحبزادہ غلام یٰسین کو منظوم چٹھیاں لکھیں ۔جو چٹھی آپ نے سید روشن علی کو لکھی ہے اس میں مولوی صاحبؒ خود فرماتے ہیں یہ نامہ بتاریخ8محرم 1300ہجری بمطابق 26کاتک سن 1939بکرمی بمطابق 10نومبر 1882ء بروز دوشنبہ( یعنی بروز سو موار) بوقت نیم روز ( یعنی بوقت دو پہر)جانی موچی کی دکان میں بیٹھ کر بحالت درد چشم لکھا گیا۔ اس وقت آپ کی عمر 33سال تھی۔

  7. ’’ سی حرفی سسی پنوں‘‘ یہ سی حرفی آپ کی شاعری کی خوبصورت مثال ہے۔

  8. ’’سی حرفی چوپٹ نامہ‘‘ یہ سی حرفی بھی آپ کی شاعری کی خو بصو رت مثال ہے۔

  9. ’’پندھ نامہ ‘‘ یہ منظوم ہے اور یہ ایک عورت کے راستہ دریافت کرنے پر لکھا گیاہے۔

  10. مولوی صاحبؒ کی دسویں اور آخری تصنیف جو اب تک سامنے آئی ہے وہ ’’مآرب الخاشعین‘‘ ہے جو کہ اُردو نثر میں آپ کی دوسری تصنیف ہے۔

* مآرب الخاشعین آپ نے 1305ھ بمطابق 1887ء کو 38سال کی عمر میں لکھی ہے۔ ان کے علاوہ آپ کی کتب’’ قصہ روپن‘‘ اور ’’گجر نامہ‘‘ بھی ہیں جو کہ باوجود تلاش کے ابھی تک نہیں مل سکیں۔

وفات

حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ 7شعبان 1309ہجری بمطابق 7مارچ 1892ء بمطابق 24 پھا گن بروز سوموار کو 43سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔آپ کو عالمپو ر کے ہی قبر ستا ن میں دفن کیا گیا اور وہیں آپ کا مزار اقدس ہے ۔مولوی صاحبؒ تین دن بیمار رہے دوست احباب کو بتا دیا تھا کہ ہمارا جانے کا وقت ہے جس نے ہمیں ملنا ہے مل لے۔ تین دن بعد بوقت چاشت آپ کا وصال ہو گیا۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے ایک دوست مولوی عبداللہ صاحب تلونڈی والے نے کرائی ان کے ساتھ مولوی صاحبؒ کا وعدہ تھا کہ پیچھے رہنے والا آگے جانے والے کی نماز جنازہ پڑھائے گا ۔جب مولوی غلام رسول عالمپوری ؒ کی وفات ہوئی اُس وقت مولوی عبداللہ صاحبؒ عالمپو ر سے چند میل کے فا صلہ پر ایک گا ؤں پنڈوری میں مو جو د تھے جہا ں پر مولو ی عبداللہ صاحب کو بذریعہ کشف مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کی وفات کا علم ہوااَور وہ کئی میل کا پیدل سفر کر کے پہنچے جب غسل کروانے لگے تومرحوم کی آنکھوں سے آنسو نکلے مولوی عبداللہ صاحب نے اپنے رومال سے ان کے آنسو پونچھ کراپنے منہ پر مل لئے۔ وہ تھوڑے سے اشارہ سے پانسا پلٹ جاتے تھے۔ جب غسل کفن کے بعد قبر کی لحد میں اتارا گیا تو مولوی عبداللہ صاحب فرمانے لگے لوگو آج میں تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں مولوی صاحبؒ میرے دوست تھے اور وہ ولائیت کے بہت اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔

میں یہا ں چند با تو ں کی وضا حت کرنا ضرو ری سمجھتا ہو ں تا کہ آنے وا لی نسلوں تک صحیح اور مستند معلو ما ت پہنچ سکیں اور تحقیق دا نو ں کے لئے آسا نی رہے ۔

  1. خلیفہ فضل دین پٹواری کے بقول بھی مو لو ی صا حب کی تا ریخ وفات 7مارچ 1892ء بروز سوموار7شعبان 1309 ہجری اور پھاگن کی 24تاریخ تھی۔ جبکہ مارچ 1920ء میں مو لو ی صا حب ؒ کی قبر مبا رک پکی کی گئی اور اُس کے اوپربھی تا ریخ وفات 7مارچ 1892ء ہی لکھی گئی۔

  2. بندہ صاحبزادہ مسعوداحمد کے والد محترم چوہدری غلام قادر(مرحوم)کو بھی مولوی صاحب سے انتہا ئی عقیدت و محبت تھی اس لئے اُنہو ں نے مولو ی صاحب کے مزار ا قدس کی تعمیر کے لئے1990 ء میں سردار نرمل سنگھ سے بھار ت میں رابطہ کیا ، جنہو ں نے اپنے دوستوں سے مل کر مولو ی صاحب کی قبر مبارک کو 1991 ء میں از سر نو تعمیر کیا۔

  3. 20اپریل2007ء کو1947ء کے بعد پہلی بارراقم الحروف مو ضع عالمپور ،تحصیل دسوہہ، ضلع ہو شیا ر پو ر، انڈیامیں مو لو ی صاحب کے مزار اقدس پرپہنچا تو مو لو ی صاحب کی قبر مبارک کے سرہا نے کی طرف جو پلیٹ لگی تھی اُس پر بھی مو لو ی صاحب کی تا ریخ پیدا ئش 29 جنو ری 1849ء اور تا ریخ وفات 7ما رچ 1892ء ہی درج تھی۔ خاکسار نے مو لو ی صاحب کی یا د میں مختلف مقامات پر منعقدہ سیمینارز میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت بھی کی اور ہندوستان کے عوام نے ان تقریبات میں بہت بڑی تعداد میں شرکت کر کے مولوی صاحبؒ سے اپنی محبت اور عقیدت کا ثبوت دیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔ ڈپٹی کمشنر ہوشیارپور نے راقم کے اعزاز میں کھانا دیاتو بندہ صاحبزادہ مسعوداحمد نے ڈپٹی کمشنر کو تحریری طور پر ایک یاداشت پیش کی جس میں مطالبہ کیا کہ عظیم صوفی شاعر حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کے مزار اقدس کی ازسر نو تعمیر اور مزاراقدس کے ساتھ زائرین کے ٹھہرنے کے لیے رہائشی کمرے ، ریسرچ سنٹر اور لائبریری بھی تعمیر کی جائے اورمولوی صاحب کی یادگار مسجد اورکھو ہی کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے جب کہ دسوہہ میانی روڈ سے مزار اقدس تک جو تقریباََ ایک ایکڑ کا فا صلہ ہے ایک سڑک بھی تعمیر کی جائے جس پر ڈپٹی کمشنرنے معززین علاقہ کی مو جو د گی میں راقم الحروف سے وعدہ کیا کہ وہ جلد اس پر عمل کریں گے اس سلسلے میں راقم نے ساہت سبھا دسوہہ گڑھ دیوالہ کے صدر جر نیل سنگھ گھمن کو کھو ہی کی تعمیرو مر مت کے لئے انڈین دس ہزاررُوپے دئیے ۔راقم کی پا کستا ن واپسی کے چند رو ز بعد ہی اہل علاقہ اور جگدیش سنگھ سوہی کی خصو صی کاوش سے مئی2007 ء میں مزار اقدس تک کچی سڑک تعمیر کر دی گئی ۔

  4. 1994-1995 میں عالمپو ر ہا ئی سکو ل میں مو لو ی غلام رسول عالمپو ریؒ یادگاری ہال تعمیر ہو چکا ہے یہ یا د گا ری ہا ل کبھی مو لو ی صاحبؒ کی مسجد ہوا کر تی تھی ۔جب 20 اپریل 2007 ء کو بندہ صاحبزادہ مسعود احمد مولو ی صاحبؒ کے مزا ر اقدس پر پہنچا تو میں نے آئندہ عرس مبارک کے لیے سات 7مارچ بمطابق24 پھاگن کی تاریخ مقرر کی جو کہ مولوی صاحبؒ کایوم وصال ہے۔

  5. مولوی صاحبؒ بہت اعلیٰ پائے کے طبیب بھی تھے آپ نے اپنے گھر کے قریب ایک مسجدبنوائی جہاں آپ کی زیر نگرا نی مکتب میں تقریباََ 40 شا گرد دُور دراز سے آکر تعلیم حاصل کر تے تھے ۔مو لو ی صاحب اِن کو دینی علوم کیسا تھ طب ،اُردواَور فا رسی کی مفت تعلیم دیتے تھے ۔ آپؒ کا خا ندا نی پیشہ زمینداری تھی۔ ایک دفعہ مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کا علی بخش نامی نوکر مویشیوں کے لیے چارہ لے کربڑی دیر بعد گھرآیا تومولوی صاحبؒ نے اس کو مخاطب ہو کر فرمایا۔

  6. سارا دن اڈیکیا گیا کویلا ہو
    ڈھیر کمائی تدھ دی بھریاں پونے دو

    پنجاب یونیورسٹی لاہور کے بانی پروفیسرG.W.Leitner نے اپنی کتاب"Histroy Of Indigineous Education In The Punjab" کے حصہ دو ئم کے صفحہ 49 میں لکھا ہے

    "At Alampur, under the direction of the excellent Maulvi Ghulam Rasool, is a large maktab with 40 pupils, where Persian and Urdu are very well taught by him gratuitously".

  7. سید رو شن علی جن کو مولوی صاحبؒ نے منظو م چٹھیا ں لکھی ہیں اُن میں ایک مصرعے کی وجہ سے بعض لو گو ں کو مغا لطہ ہو جا تا ہے کہ سید رو شن علی پٹوا ری تھے جبکہ مو لو ی صا حبؒ نے یہ مصرعہ محاورۃََ لکھا ہے ۔

    جے تو ں مالو ہ چا ر دن چھڈ آویں تیر ی جا ونی کھس پٹوار نا ہیں

    مجھے خا ندا نی طور پر معلوم ہے اور حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ اپنے قلمی لکھے ایک اُردونثر پارے میں بھی اس بات کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں جبکہ سید رو شن علی کے پو تے سید ضمیر حسین شا ہ جو اس وقت 2006 ء میں 85 سال کے ہیں اور فو رٹ عبا س میں رہا ئش پذیر ہیں وہ بھی میری با ت کی تصدیق کرتے ہیں کہ سید رو شن علی پٹوا ری نہیں تھے اور سید رو شن علی کی ایک ہی شا دی ہو ئی تھی جو مولوی صاحب نے اپنی معرفت ایک اچھے پٹھان خاندان میں کروادی تھی ۔ میں اس بات کی وضاحت کرنی ضروری سمجھتا ہوں کہ سید روشن علی، مولوی صاحبؒ کے شاگرد تھے۔

    سید روشن علی کے پو تے رشید محمد شا ہ اور سیّد ضمیرحسین شا ہ دونو ں بھا ئیو ں کے بقول سید روشن علی شا دی کے بعد ریا ست نا بھہ کے مو ضع گو بند گڑ ھ عرف دبڑ ی خا نہ چلے گئے اور رہا ئش اختیا ر کر لی وہا ں سیّد رو شن علی حکمت اور اما مت کر تے تھے ۔ رشید محمد شا ہ کہتے ہیں کہ مو لو ی امیر الدین جلا ل آبا دی اُن کے والد سید عنائیت شا ہ کے شا گرد تھے ۔ مو لو ی امیر الدین جلا ل آبادی، سید عنا ئیت شا ہ سے ابتدا ئی تعلیم حا صل کر نے کے بعد بسلسلہ تعلیم لدھیا نہ چلا گیااور دیگر علم وہاں سے حا صل کیالیکن سید عنائیت شا ہ کے گھر اُس کا آنا جا نا رہتا تھا وہ بڑا مشہور واعظ تھا لہٰذا حضر ت مو لوی غلا م رسول عا لمپو ریؒ کی لکھی ہو ئی چٹھیا ں جو کہ سیّدعنائیت شا ہ کے پا س مو جود تھیں اُن کو مو لو ی امیر الدین لے گیااور دوران وعظ وہ اُن کو پڑھ کر عوا م کو فر یفتہ کر دیا کر تا تھا۔

  8. راقم کو خاندانی طور پر اس بات کا علم ہے کہ مو لو ی صا حب ؒ کے وا لد محترم کسی مسجد کے اما م نہیں تھے کچھ لکھا ری حضرا ت نے بغیر تحقیق کے اُن کو اما م مسجد لکھا ہے جو درست نہیں ہے۔ وہ ایک نیکدل انسان تھے اور ان کاخا ندا نی پیشہ زمیندا ری تھی۔

  9. نصا ب کی کُتب اور دیگر تحقیقی کتب میں مختلف احبا ب نے بغیر کسی تحقیق کے محض اپنے اندا زے سے مولوی صاحبؒ کے سلسلہ طریقت کے با رے میں مختلف آرا ء دی ہیں۔ کسی نے لکھا ہے کہ آپ سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے تو کسی نے لکھا ہے کہ آپ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت تھے لیکن اُن کے پا س کو ئی وا ضح دلیل اور سندنہ تھی کیونکہ اُس وقت اس سلسلے میں میرے پاس بھی کوئی واضح دلیل، ثبوت اور سند موجود نہیں تھی لہٰذا میں اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ مولوی صاحبؒ ظاہری طور پر کسے سلسلے میں بیعت نہیں تھے۔یہ با ت آپ کے وصال سے لیکر آج تک یعنی تقریباَ117سال تک معمہ بنی رہی لیکن ما رچ 2009ء میں مولو ی صاحب کے ہا تھ کا لکھا ہو ا منظوم شجرۂ طر یقت مجھے مل گیا ہے۔ یہ شجر ۂ طریقت تین زبا نو ں اُردو،فا رسی اور پنجا بی میں لکھا ہو ا ہے اور یہ شجر ہ مو لو ی صاحب نیتقریباََ12 سال کی عمر میں اپنے دوست کے ایماء پر لکھا جس کا ذکر آپؒ نے اپنے اشعار کے ذریعے بھی کیا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحبؒ ظاہری طور پر کہیں بیعت نہ تھے۔اب میرے پاس شجرہ طریقت کی صورت میں سند مو جو د ہے۔میں اس شجرۂ طریقت کو شا ئع کر کے عوام تک جلدپہنچادوں گا ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپؒ پیدائشی طور پرولی اللہ تھے مولو ی صاحب کے بقو ل

    عشق کرم دا قطرہ ازلی تیں مَیں دے وس ناہیں
    اِکناں لبھدیاں ہتھ نہ آوے اِکناں دے وچ راہیں
    اِکناں کھپدیاں عمر گوائی پلے پیا نہ کائی
    اِکناں ہوش جدُو کی آئی ایہہ نعمت گھر پائی

    میں نے ہمیشہ ایما ندا ری سے سچ با ت کی ہے اور سچ با ت کو صدق دل سے تسلیم کیا ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ کسی بھی تا ریخی شخصیت کے بارے میں قلم اُٹھا نے سے پہلے پوری ذمے داری، تحقیق اور احتیاط سے معلومات اکٹھی کرنی چا ہیے جن میں ذاتی خواہشات کا عمل دخل نہ ہو تاکہ آنیوالی نسلوں تک صحیح ،مستند اور مفید معلومات پہنچ سکیں لہٰذ ا تاریخ لکھنے کیلئے اعلیٰ اور کھلے ذہن کی ضرورت ہے اور یہ کام انتہا ئی ذمہ داری، خلوص اور ایمانداری سے کرناچا ہیے۔

  10. بھارت میں مولوی صاحبؒ کی ’’احسن القصص‘‘ کا بہت سال پہلے گرمکھی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے جو کہ بندہ صاحبزادہ مسعوداحمد کے پاس موجود ہے اورڈاکٹر اُتم سنگھ بھا ٹیہ کا لکھا ہوا تھیسزجس ’’کو لینگوئج ڈیپا رٹمنٹ پنجاب پٹیالہ ‘‘نے شا ئع کیا ہے وہ بھی میرے پاس موجود ہے۔پاکستان میں بھی ہر سال آپ کی یادمیں عرس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے۔ راقم الحروف نے 30 نومبر 1990ء کو آرگنائزیشن کی بنیادی رکھی۔حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کے حالاتِ زندگی اور کلام پر راقم الحروف کی دو کتب شائع ہو چکی ہیں پہلی کتاب ’’ڈونگھے راز‘‘ (مولوی غلام رسول عالمپوری اک مطالعہ) کے نام سے مولوی غلام رسول عالمپوری ریسرچ آرگنائزیشن (رجسٹرڈ) کی جانب سے 1999ء میں شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں مولوی صاحبؒ کے بارے میں پاکستان اور ہندوستان کی اہم شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔اس کتاب کو پاکستان اور ہندوستان کے علمی وادبی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ جبکہ بندہ صاحبزادہ مسعوداحمد کی دوسری کتاب ’’پاکستانی ادب کے معمار: مولوی غلام رسول عالمپوریؒ شخصیت اور فن‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان نے 2011ء میں شائع کی پھر اس کتاب کو انڈین گورنمنٹ پنجاب کے ادارے ’’بھاشا وبھاگ‘‘ پنجاب کے ڈائریکٹر چیتن سنگھ نیپنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے پروفیسر ڈاکٹر رحمان اختر سے گرمکھی رسم الخط میں ترجمہ کروا کر مارچ2014میں انڈیا سے شائع کیا اور اس کی تقریبِ رونمائی ہوشیار پور کے پریذیڈنسی ہوٹل میں ہوئی جس میں بندہ صاحبزادہ مسعود احمد نے خصوصی شرکت کی۔ مئی 2013ء میں عظیم صوفی شاعر حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ کی سات نایاب تحریروں کو تین کتب کی صورت میں بندہ نے مرتب کرکے اپنی تنظیم حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ ریسرچ آرگنائزیشن (رجسٹرڈ)کی جانب سے شائع کیا ہے ۔

    قبل ازیںیہ ساتوں تحریریں احسن القصص کے آخر میں چھپتی رہی ہیں بعد ازاں مئی 1962میں محمد عالم کپور تھلوی مرحوم نے متذکرہ بالا تحریروں کواکٹھا کر کے کتابی شکل میں شائع کیا اور اس کا نام ’’ست پھل‘‘ رکھالیکن میں نے فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کو ان کے اصل نام سے ہی شائع کیا جائے لہٰذا حضرت مولوی صاحب ؒ کی منظوم چٹھیاں جو اُنہوں نے مختلف احباب کو لکھی تھیں اور وہ چٹھیاں کے نام سے معروف تھیں لہٰذا اِن کو اسی نام سے شائع کردیا گیا ہے ۔ حضرت مولوی غلام رسول عالمپوری رحمۃ اللہ علیہ کی تین تحریروں ’’سی حرفی سسی پنوں، سی حرفی چوپٹ نامہ اور پندھ نامہ‘‘ کو راقم نے اکٹھا کرکے’’درد کُسالے ‘‘کانام دے کر شائع کردیا ہے ۔اسی طرح’’حلیہ شریفﷺ‘‘ بھی اپنے نام سے عوام میں بہت مقبول رہا لہٰذا اس کواسی نام سے شائع کردیا گیا ہے۔میں نے ان کُتب کو از سر نو ترتیب دیا جواشعار کم تھے ان کو پورا کیا کتابت کی غلطیوں سے پاک کیااورمشکل الفاظ کے معنی بھی درج کر دئیے ہیں۔ اگست 2015 میں حضرت مولوی صاحبؒ کی اردو نثر میں ایک بلند پایہ تصنیف مآ رب الخاشعین کو پہلی بار شائع کر کے عوام تک پہنچا دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے راقم بندہ صاحبزادہ مسعود احمد کو یہ توفیق دی ہے کہ میں نے حضرت مولوی صاحبؒ کی کُتب ماٰرب الخاشعین،احسن القصص،چٹھیاں،حلیہ شریف حضور ﷺ اور درد کسالے کو پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے پروفیسر ڈاکٹر ندیم احمد سے گرمُکھی رسم الخط میں تراجم کروا لئے ہیں اور یہ کُتب کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے مراحل سے گزر چکی ہیں امید ہے کہ جولائی 2016میں متذکرہ بالا کُتب گرمُکھی رسم الخط میں شائع ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ راقم کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بھی دی کہ حضرت مولوی صاحب ؒ کی کتاب احسن القصص اور چٹھیوں میں سے کچھ کلام انتخاب کر کے منتخب کلام کے نام سے جون 2016 میں شائع کر دیا گیا ہے اسی طرح حضرت مولوی صاحبؒ کی باقی دستیاب تمام کتب کوکمپوز کروالیا گیا ہے اور وہ بھی اب اشاعت کے مراحل میں ہیں۔حضرت مولوی صاحبؒ کے مزارِ اقدس موضع عالمپور ،تحصیل دسوہہ،ضلع ہوشیار پور ،انڈیا سے 7مارچ 2008ء سے آرگنائزیشن کی طرف سے مولوی صاحبؒ کی یا دمیں دنیا بھرسے منتخب شخصیات کونمایاں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طورپر ایوارڈز، تعریفی اسناد اور شیلڈز دینے کا سلسلہ شروع کر دیاگیا ہے اور اب تک ہندوستان اور پاکستان کے مختلف شہروں میں سیمینارز منعقد کر کے کئی اہم شخصیات کو ایوارڈز، تعریفی اسناداور شیلڈز دے دی جا چکی ہیں۔

تحریر و تحقیق
صاحبزادہ مسعود احمد عالمپوری

پڑ نواسہ حضرت مولوی غلام رسول عالمپوری
(بانی و صدر)
حضرت مولوی غلام رسول عالمپوری ٹرسٹ(رجسٹرڈ)،فیصل آباد ،پاکستان۔
(بانی وچئیرمین)
حضرت مولوی غلام رسول عالمپوری ٹرسٹ(رجسٹرڈ)،ہوشیارپور،انڈیا۔
ڈاک کا پتہ :  پوسٹ بکس نمبر1022، پیپلز کالونی ، فیصل آباد،پاکستان
موبائل نمبر   0092 313 8666611, 0092 300 4473366
ویب سائٹ:  www.alampuri-research.org
ای میل:  president_alampuri@yahoo.com,   president_org@hotmail.com